ہمارا جسم بھی ہم سے رہائی چاہتا ہے
نمودِ خاک ہے لیکن خدائی چاہتا ہے
اسیرِ نفس ہے کوئی کہ خواہشوں کا غلام
ہر ایک شخص یہاں پارسائی چاہتا ہے
مکانِ جسم پہ اِس دل کی دستکیں بھی سنو
خوشی سے رقص میں ہے یا رہائی چاہتا ہے
یہ میرا دل تو مِرے پاؤں پڑ گیا کل شام
یہ مجھ سے بڑھ کے تِرے ہاں رسائی چاہتا ہے
ہے مختصر کہ مِرا دل اُداس رہتا ہے
وفا کے قحط میں یہ دل رُبائی چاہتا ہے
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...